اگر پوچھتا ہے تو سن یار جانی

اگر پوچھتا ہے تو سُن یارِ جانی
ہماری جوانی بھی تھی کیا جوانی
ہنسی، دل لگی، چہچہے، شادمانی
ہمیشہ حسینوں سے آنکھیں لڑانی
سدا کامیابی، سدا کامرانی
بہت یاد آتی ہیں باتیں پرانی
وہ دن رات کُوئے نگاراں کے پھیرے
وہ رنگین کوٹھے، وہ گُل پوش ڈیرے
وہ کمرے فروزاں، وہ زینے اندھیرے
وہ زلفوں کے حلقے، وہ بانہوں کے گھیرے
وہیں مدّتوں جا کے راتیں بِتانی
بہت یاد آتی ہیں باتیں پُرانی
چھریرے بدن وہ ہوا میں لہکتے
گلے میں وہ بیلے کے کھنٹے مہکتے
وہ آنچل ڈھلکتے، وہ عارض دہکتے
وہ عالم کہ ہم بِن پیے بھی بہکتے
بہکنے کی اُن سے سزائیں بھی پانی
بہت یاد آتی ہیں باتیں پرانی
کنہّیا بنے گھومتے ہولیوں میں
لئے رنگ پھرتے تھے ہم جولیوں میں
سدا جا ملے گُل بدن ٹولیوں میں
اُترتی پھواریں حسیں چولیوں میں
دھنک بن گئیں ساڑھیاں جو تھیں دھانی
بہت یاد ؔآتی ہیں باتیں پرانی
ہر اک جام میں وہ برابر کی ڈھلنا
وہ شیشے کا گرداب بن کر مچلنا
وہ گر گر کے خود ساقیہ کا سنبھلنا
کمر کو وہ اِس طرح بَل دے کے چلنا
کہ کستی چلی جائے جیسے کمانی
بہت یاد آتی ہیں باتیں پرانی
نہ وہ دل، نہ وہ دل کی نادانیاں ہیں
نہ وہ ہم، نہ وہ بزم سامانیاں ہیں
نہ وہ دوستوں کی گُل افشانیاں ہیں
نہ وہ فکرِ رنگیں کی جولانیاں ہیں
گئی شعر گوئی، رہی نوحہ خوانی
بہت یاد آتی ہیں باتیں پرانی
(جاں نثار اختر)

Comments