دل بڑھ گیا ہے پاؤں میں زنجیر دیکھ کر

اہل جنوں کو وُسعتیں کچھ اور مِل گئیں
دل بڑھ گیا ہے پاؤں میں زنجیر دیکھ کر
اے دردِ نَزع چھوڑ اُمیدِ فریبِ دِید
دیکھیں گے خواب، خواب کی تعبیر دیکھ کر
حیراں ہوئے نہ تھے جو تصوّر میں بھی کبھی
تصویر ہو گئے تِری تصویر دیکھ کر
یہ عہد باندھ کر نِگہِ مَست جُھک گئی
اُٹھیں گے اِک جہان کو تسخیر دیکھ کر
چونک اُٹھی عُمرِ خِضر بھی دردِ حیات سے
آبِ بقا میں زہر کی تاثیر دیکھ کر
عالَم وہ ھے فراق! کہ دن ہے نہ رات ہے
کرتا ہے کوئی نالہء شب گیر دیکھ کر
سب مرحلے حیات کے طے کر کے اب فراق!
بیٹھا ہُوا ہُوں موت میں تاخیر دیکھ کر

فراق گورکھپوری

Comments