رکھ لیتے ہیں دل بیچ، زباں پر نہیں لاتے

رکھ لیتے ہیں دل بیچ، زباں پر نہیں لاتے
کچھ تیر ہیں ایسے جو کماں پر نہیں لاتے

ممکن ہی نہیں صبحِ بہاراں کا کھلے در
ایمان اگر شامِ خزاں پر نہیں لاتے

یادِ رخِ گل فام کو سینے میں چھپا رکھ
یہ جنس ہے نایاب، دکاں پر نہیں لاتے

کیا جانیے کس دھن میں گرفتار ہیں ثروت
مدّت سے وہ تشریف یہاں پر نہیں لاتے
ثروت حسین

Comments