جنگل کی ہوا بھی سرپھری ہے

وحشت میں سکوُن ڈھوُنڈتی ہے
جنگل کی ہَوا بھی سَرپھری ہے
اِس دل میں بَسی ہے یاد تیری
پتھر میں کِرن چُھپی ہوئی ہے
یہ سوچ کے ہنس پڑے سِتارے
اِنسان فلک پہ اجنبی ہے
زِنداں میں ھَوا کہاں سے آئی؟
دیوار کہاں سے گِر پڑی ہے؟
اب پُھول مِلیں تو سَنگ سمجھو!
اِس شہر کی رُت بدل چُکی ہے
رونق تو وہی ہے پھر بھی جیسے
اِک شخص کی شہر میں کمی ہے
خوُد کو بھی مِری نظر سے دیکھو
مخلوُق تو جھوُٹ بولتی ہے
گھر اپنا یہ کِس نے پُھونک ڈالا؟
تاحدِ نِگاہ روشنی ہے
مِلتے ہو لباسِ دوستی میں
سوچو یہ کہاں کی دُشمنی ہے؟
بندے بھی خُدا بَنے ہُوئے ہیں
محسن! یہ کمالِ بندگی ہے

محسن نقوی

Comments