***

***

***

***

ثوابت سے سیّار تک جائیں گے
زمانے کی رفتار تک جائیں گے

ذرا دیکھنا آدمی کے قدم
جہانوں کے اَسرار تک جائیں گے

نواحِ گلستاں میں خاموش رہ
یہ نالے گرفتار تک جائیں گے

جہاں کے جھمیلوں سے فرصت ملی
تو یارِ طرح دار تک جائیں گے

بندھے ہاتھ کُھل جو گئے ساتھیو
تو شاخِ ثمردار تک جائیں گے
***

مجھ کو یہ رنج کھائے جاتا ہے
باـغ پتّے گرائے جاتا ہے

دیکھ رہ گیر اس بیاباں کا
دھوپ کے سائے سائے جاتا ہے

’’ہے مکان و سرا و جا خالی‘‘1
’’تو کہاں منھ اٹھائے جاتا ہے‘‘1

کوئی سمجھاؤ اس درندے کو
آدمی خوں بہائے جاتا ہے

شاعرِ بے دماغ مٹّی پر
بیل بوٹے بنائے جاتا ہے

زرد ہو جائے گی زمیں ثروت
کیوں ستارے گرائے جاتا ہے

Comments