ایک مدت سے اسے ہم نے جدا رکھا ہے

ایک مدت سے اسے ہم نے جدا رکھا ہے
یہ الگ بات ہے یادوں میں بسا رکھا ہے
ہے خلا چاروں طرف اس کے تو ہم کیوں نہ کہیں
کس نے اس دھرتی کو کاندھوں پہ اٹھا رکھا ہے
جو سدا ساتھ رہےاور دکھائی بھی نہ دے
نام اس کا تو زمانے نے خدا رکھا ہے
مرے چہرے پہ اجالا ہے تو حیراں کیوں ہے
ہم نےسپنےمیں بھی ایک چاندچھپارکھاہے
جو طلب چاندنی راتوں میں بھٹکتی ہی رہی
اب اسے دھوپ کی چادر میں سلا رکھا ہے
پریم بھنڈاری

Comments