مزاروں پر محبت جاودانی سن رہے تھے


مَزاروں پر محبت جاودانی  سُن رہے تھے
کبوتر کہہ رہے تھے ھم کہانی سُن رہے تھے

مِری گُڑیا ، تِرے جگنو ، ہماری ما ؤں کے غم
ہم اِک دُوجے سے بچپن کی کہانی سُن رہے تھے

گزرتی عمر کے ھر ایک لمحے کی زبانی
محبت رائیگانی ، رائیگانی سُن رہے تھے

کبھی صحرا کے سینے پر بِکھرتا ہے تو، کیسے
سنہرے گیت گاتا ہے یہ پانی ، سُن رہے تھے

مزاجِ یار سے ایسی شناسائی تھی
ہم اُس کی گفتگو میں بے دھیانی سُن رہے تھے

ہتھیلی پر رکھے پُھولوں پہ جو آنسو گرے تھے
ہم اُن میں نرم گیتوں کی روانی ، سُن رہے تھے

نوشی گیلانی

Comments