پیام لے کے جو پیغام بر روانہ ہوا

پیام لے کے جو پیغام بر روانہ ہوا
حسد کو حیلہ ملا اشک کو بہانہ ہوا
وہ میری آہ جو شرمندہء اثر نہ ہوئی
وہ میرا درد جو منت کش دوا نہ ہوا
خیال میں رہیں صورتیں عزیزوں کی
وطن سے چھوٹے ہوۓ اس قدر زمانہ ہوا
وہ داغ جس کو جگہ دل میں دی تھی جیتے جی
چراغ بھی تو ہمارے مزار کا نہ ہوا
پری وشوں کو سناتے ہیں قصہ خواں بیخودؔ
ہمارا حال نہ ٹھہرا کوئی فسانہ ہوا

بیخود بدایونی

Comments