دنیا نے ہم پہ جب کوئی الزام رکھ دیا

دنیا نے ہم پہ جب کوئی الزام رکھ دیا
ہم نے مقابل اُس کے تیرا نام رکھ دیا

اک خاص حد پہ آ گئی جب تیری بے رخی
نام اُس کا ہم نے گردشِ ایام رکھ دیا

میں لڑکھڑا رہا ہوں تجھے دیکھ دیکھ کر
تو نے تو میرے سامنے اک جام رکھ دیا

کتنا ستم ظریف ہے وہ صاحبِ جمال
اُس نے دیا جلا کے سرِ بام رکھ دیا

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا

کیا مصلحت شناس تھا وہ آدمی قتیل
مجبوریوں کا جس نے وفا نام رکھ دیا

قتیل شفائی

Comments