جان دے کر تمہیں جینے کی دعا دیتے ہیں

جان دے کر تمہیں جینے کی دعا دیتے ہیں
پھر بھی کہتے ہو کہ عاشق ہمیں کیا دیتے ہیں
کوچہٓ یار میں ساتھ اپنے سُلایا ان کو
بختِ خُفتہ کو مرے پانوں دُعا دیتے ہیں
بدگمانی کی بھی کچھ حد ہے کہ ہم قاصد سے
قسمیں سو لیتے ہیں ، جب ایک پتا دیتے ہیں
موت بازار میں بکتی ہے تو لا دو مجھ کو
ہم نشیں کس لیے جینے کی دُعا دیتے ہیں
رحم آتا ہے ہمیں قیس کی عریانی پر
دھجّیاں دامنِ صحرا کی اُڑا دیتے ہیں
ایسی ذلّت ہے مرے واسطے عزت سے سِوا
خُود وہ اُٹھ کر مجھے محفل سے اُٹھا دیتے ہیں
غیر کہتے ہیں کہ یہ پھول گیا ہے مُردہ
قبر پر میری ، جو وہ پھول چڑھا دیتے ہیں
موت بولی ، جو ہوا کوچہٓ قاتل میں گزر
سر اسی راہ میں مَردان خُدا دیتے ہیں
اُن کو بےتاب کیا ، غیر کا گھر پھُونک دیا
ہم دعائیں تجھے ، اے آہِ رسا دیتے ہیں
گرم ہم پر کبھی ہوتا ہے جو وہ بُت اقباؔل
حضرتِ داغؔ کے اشعار سُنا دیتے ہیں
منسوخ شدہ
۱۵ جولائی ۱۹۴۴ء
کتاب ۔ ابتدائی کلام اقبالؔ ۔ صفحہ ۳۷
بہ ترتیب مہ و سال ۔ ڈاکٹر گیان چند

Comments