نہ جسم ساتھ ہمارے نہ جاں ہماری طرف

نہ جسم ساتھ ہمارے نہ جاں ہماری طرف
ہے کچھ بھی ہم میں ہمارا کہاں ہماری طرف

کھڑے ہیں پیاسے انا کے اسی بھروسے پر
کہ چل کے آئے گا اک دن کنواں ہماری طرف

بچھڑتے وقت وہ تقسیم کر گیا موسم
بہار اس کی طرف ہے خزاں ہماری طرف

اسی امید پہ کردار ہم نبھاتے رہے
کہ رخ کرے گی کبھی داستاں ہماری طرف

کہاں کہاں نہ چھپے بستیاں جلا کے مگر
جہاں جہاں گئے آیا دھواں ہماری طرف

لگا کے جان کی بازی جسے بچایا تھا
کھنچی ہوئی ہے اسی کی کماں ہماری طرف

اچھال دیتے ہیں پتھر خلا میں ہم جو کبھی
پلٹ کے دیکھتا ہے آسماں ہماری طرف

راجیش ریڈی

Comments