ہر وقت تصور میں مدینے کی گلی ہے

ہر وقت تصور میں مدینے کی گلی ہے
اب در بدری ہے نہ غریب الوطنی ہے

وہ شمع حرم جس سے منور ہے مدینہ
کعبے کی قسم رونق کعبہ بھی وہی ہے

اس شہر میں بک جاتے ہیں خود آ کے خریدار
یہ مصر کا بازار نہیں ، شہر نبی ہے

اس ارضِ مقدس پہ ذرا دیکھ کے چلنا
اے قافلے والو یہ مدینے کی گلی ہے

نظروں کو جھکائے ہوئے خاموش گزر جاؤ
بے تاب نگاہی بھی یہاں بے ادبی ہے

حق اس کا ادا صرف جبینوں سے نہ ہوگا
اے سجدہ گزارو یہ درِ مصطفوی ہے

نذرانہ جاں پیش کرو حلقہ بگوشو!
یہ بارگہِ ہاشمی و مطلبی ہے

اقباؔل میں کس منہ سے کروں مدحِ محمد ﷺ
منہ میرا بہت چھوٹا ہے اور بات بڑی ہے

پروفیسر اقبال عظیم

Comments