Posts

Showing posts from August, 2018

تو یار ہے تو مجھے یار کیوں نہیں لگتا

کل رات بزم میں جو ملا گلبدن سا تھا

اینے سوہنے نین کسے دے

تری ترچھی نظر کا تیر ہے مشکل سے نکلے گا

خواہاں ترے ہر رنگ میں اے یار ہمیں تھے

تو مری جان گر نہیں آتی

چنگے کاروبار تے آیا ہندا اے

ﻭﮦ ﺛﻤﺮ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺩﻋﺎﺅﮞ ﮐﺎ، ﺍُﺳﮯ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ

وہ زمانہ نظر نہیں آتا

کوئی منہ چوم لے گا اس نہیں پر

ساغر چڑھائے پھول کے ہر شاخسار نے

جب کیا جائے گا زوجین کے جھگڑوں کا حساب

میں اس امید پہ ڈوبا کہ تو بچا لے گا

مدت سے ڈھونڈتی ہے کسی کی نظر مجھے

دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے

کیسے چھپاؤں راز غم دیدۂ تر کو کیا کروں

بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا

حکمراں مجھ کو بہاروں کا بنایا جائے

ﺗﯿﺮﮮ ﻭﻋﺪﮮ ﮐﻮ ﺑﺖ ﺣﯿﻠﮧ ﺟﻮ ﻧﮧ ﻗﺮﺍﺭ ﮨﮯ ﻧﮧ ﻗﯿﺎﻡ ﮨﮯ

سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے

ہر شب شب برات ہے ہر روز عید ہے

بات میں ہو گئے خفا صاحب​

آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو

اب تری یاد سے وحشت نہیں ہوتی مجھ کو

اب ترے رُخ پر محبت کی شفق پھولی تو کیا

رکھ لے مان جو ہویا

یہ سر بہ مہر بوتلیں ہیں جو شراب کی

ریاض خیر آبادی

مجھ میں وہ تابِ ضبطِ شکایت کہاں ہے اب