ہر شب شب برات ہے ہر روز عید ہے

زاہد فریفتہ ہیں مرے نونہال کے
عاشق بزرگ لوگ ہیں اس خورد سال کے
ہر شب شبِ برات ہے، ہر روز عید ہے
سوتا ہوں ہاتھ گردنِ مینا میں ڈال کے
مضمونِ رفتگاں ہے طبیعت کو اپنی ننگ
گاہک نہ ہوویں ہم کبھی مردے کے مال کے
شان و شکوہ نے ہمیں برباد کر دیا
مثلِ حباب اُڑ گئے خیمہ نکال کے
رنجِ خمار اٹھانے کی طاقت نہیں مجھے
پیتا ہوں میں شراب میں بھی لُون ڈال کے
بے عشق لوگ کہتے ہیں ماہِ چہاردہ
سُن کر مُقر ہوئے ہیں تمھارے کمال کے
اُس تُرک کی نگہ جو کرے ناوک افگنی
تودے لگائے خاکِ شہیداں کلال کے
سرمہ نہیں ہوا ہے تجلی سے طور ہی
ہم بھی ہیں سوختہ تری برقِ جمال کے
شامِ شبِ فراق سے پہلے مُوے جو لوگ
آئی ہوئی بلا گئے سر پر سے ٹال کے
اُس شمع رو کا واہ رے جسمِ گداز و صاف
اللہ نے بنایا ہے سانچے میں ڈھال کے
افعی ہے زلف، خال ہے افعی کی مردمک
عقدے کھلے یہ فکر سے اُس زلف و خال کے
آنکھوں میں اپنی رکھتے ہیں اہلِ نظر انھیں
سرمہ ہوئے ہیں پستے ہوئی تیری چال کے
اخوانِ دہر سے عجب اس کا نہ جانیے
یوسف کی فکر میں جو پھریں گُرگ پال کے
معنی کے شوق میں جو ہوا دل کو میلِ فکر
تصویر شعر بن گئے پُتلے خیال کے
سودائی جان کر تری چشمِ سیاہ کا
ڈھیلے لگاتے ہیں مجھے دیدے غزال کے
شک ہوتا تیرے ہاتھ کا، ہوتے جو اے صنم
پنجے میں آفتاب کے ناخن ہلال کے
آئینے سے کلام کو کیونکر کیا ہے صاف
حیرانِ کار ہم بھی ہیں آتشؔ کے حال کے
خواجہ حیدر علی آتشؔ

Comments