حکمراں مجھ کو بہاروں کا بنایا جائے

حکمراں مجھ کو بہاروں کا بنایا جائے
تاج کانٹوں کا مرے سر پہ سجایا جائے

ہر کوئی اب تو گنہ گار بنا بیٹھا ہے
پارسائی کا ہنر مجھ کو سکھایا جائے

موت برحق ہے مگر میری گزارش یہ ہے
زندہ انسانوں کا جنازہ نہ اُٹھایا جائے

میں بتاؤں گا اسے زخم کی لذت کیا ہے
پھول کا مجھ سے تعارف تو کرایا جائے

قدر جس سے رسن و دار کی گھٹ جاتی ہے
مجھ کو اس حرفِ ندامت سے بچایا جائے

طبعِ نازک تو میں رکھتا ہوں پر ایسی بھی نہیں
کہ سر اپنا بھی نہ کاندھوں پہ اُٹھایا جائے

اُنگلیاں کاٹ کے لے جائے رفاقت جس کی
اس منافق سے مرا ہاتھ چھڑایا جائے

میں تو قاتل ہوں سزائے نظر اندازی کا
میرے مجرم کو مرا ظرف بتایا جائے

بڑھ گئی عمر مری نصف صدی سے بھی قتیلؔ
جشن اب میرے غموں کا بھی منایا جائے

قتیل شفائی

Comments