آزمایا ہے مدام آپ کو، بس بس، اجی بس

آزمایا ہے مدام آپ کو، بس بس، اجی بس
دونوں ہاتھوں سے سلام آپ کو، بس بس، اجی بس
آپ کی بندہ نوازی ہے جہاں میں مشہور
جانتا ہے یہ غلام آپ کو، بس بس، اجی بس
منہ نہ کھلوائیے میرا یونھی رہنے دیجے
یاد بھی ہے وہ کلام آپ کو، بس بس، اجی بس
کوچۂ غیر ہی میں زورِ نزاکت بھی ہوا
وہیں کرنا تھا قیام آپ کو، بس بس، اجی بس.
کیا برے ڈھنگ میں کوئی نہیں اچھا کہتا
غیر بھی رکھتے ہیں نام آپ کو، بس بس، اجی بس
ہم نے کل دیکھ لیا، دیکھ لیا، دیکھ لیا
کہیں جاتے سرِ شام آپ کو، بس بس، اجی بس
طالبِ وصل ہو کیوں کوئی جو دشنام سنے
کون بھیجے یہ پیام آپ کو، بس بس، اجی بس
حیلۂ مہر و وفا پر نہ تامّل نہ درن
اور وعدے میں کلام آپ کو، بس بس، اجی بس
کیجیے ہاتھ لگا کر جو مرا کام تمام
یہ بھی آتا نہیں کام آپ کو، بس بس، اجی بس
یہ تو کہیے کہ نشان اس کا مٹایا کس نے
یاد ہو داغ کا نام آپ کو، بس بس، اجی بس

داغ دہلوی

Comments