کبھی خواہش سے رسد مانگنی پڑ جاتی ہے

کبھی خواہش سے رسد مانگنی پڑ جاتی ہے
جیسے بے انت سے حد مانگنی پڑ جاتی ہے
یہ کڑا وقت ملا دیتا ہے مٹی میں انا
کیسے کیسوں سے مدد مانگنی پڑ جاتی ہے
بعد تیرے یوں تساہل میں پڑے رہتے ہیں
سانس لینے کو بھی کد مانگنی پڑ جاتی ہے
تیری دنیا کے ضوابط نے دکھایا ہے یہ دن
تیرے جیسوں سے سند مانگنی پڑ جاتی ہے
غیر مشروط ہی آغاز میں ہوتا ہے سبھی
اور پھر شرطِ عمد مانگنی پڑ جاتی ہے
ہونے لگتے ہیں فرشتہ تو بشر رہنے کو
کوئی اک عادتِ بد مانگنی پڑ جاتی ہے
پھیر پڑ جاتے ہیں مر مر کے جیے جانے تک
توہمیں روحِ ابد مانگنی پڑ جاتی ہے
صائمہ حق نہ جتاؤں تو خفا ہوتا ہے
سو یونہی خوئے حسد مانگنی پڑ جاتی ہے

صائمہ اسحاق

Comments