کوئی آسماں کیا سوا ہو گیا

کوئی آسماں کیا سوا ہو گیا
کہ افزوں نزول بلا ہو گیا
وہ جاتے ہیں دامن بچائے ہوئے
تجھے جرات شوق کیا ہو گیا
ڈرو نالہ حسرت آلود سے
غضب ہو گیا گر رسا ہو گیا
نہ ہلنے دیا مہر صیاد نے
رہا قید میں گو رہا ہو گیا
کبھی میرے دل سے نکلتا نہیں
یہ غم تو مزا وصل کا ہو گیا
ہوئے بال و پر بند اب ہمکو کیا
اگر عقدہ دام وا ہو گیا
بڑھے اور بھی بخت کی تیرگی
اگر سر پر ظل ہما ہو گیا
لگا ہاتھ میں کس کا شور آب اشک
جو پھیکا سا رنگ حنا ہو گیا
کہا میں نے ایجاں تو بولے چہ خوش
کہو کب سے میں بیوفا ہو گیا
وہ آئیں یہاں اک نئی بات ہے
تجھے بخت بد آج کیا ہو گیا
کیا حال دوری جو ان کو رقم
تو ہر حرف خط کا جدا ہو گیا
کھٹکتا ہے پہلو میں دن رات دل
یہ پیکاں ترے تیر کا ہو گیا
کھلا جب سیہ نامہ میرا تو پھر
شب تار روز جزا ہو گیا
ہیں اس تند خو سے یہ گستاخیاں
تھمو تم کو مجروح کیا ہو گیا

میر مہدی مجروح

Comments