موسٰی نہ غش میں آئیو ، اک بار دیکھنا

موسٰی نہ غش میں آئیو ، اک بار دیکھنا
آساں نہیں ہے یار کا دیدار دیکھنا
محفل طرازیاں وہ کہاں،اب تو کام ہے
گھر میں پڑے ہوۓ در و دیوار دیکھنا
ساقی کی چشمِ مست کا گر دور ہے یہی
زاہد کو آج کل ہی میں مے خوار دیکھنا
ہیں بعدِ مرگ بھی وہی آنکھیں کھلی ہوئی
عاشق کی اپنے حسرتِ دیدار دیکھنا
گر چشمِ تر کی ہیں یہی خوننابہ باریاں
اس گھر ہی میں لگا گل و گلزار دیکھنا
ہے کس سے تانک جھانک، کہ خالی نہیں ہے یہ
سوراخِ در سے آپ کا ہر بار دیکھنا
چندے یونہی ہے عشقِ زلیخا کی گر کشش
یوسفؑ کو آج کل سرِ بازار دیکھنا
ہو قہر یا کہ مہر ، کوئی یہ بھی ڈھنگ ہے
سو بار منہ کو پھیرنا ، سو بار دیکھنا
قطعہ
میں اپنی جاں پہ کھیل کے کل قتل گاہ میں
کہنے لگا کہ قاتلِ خوں خوار دیکھنا
کیا قتل کرنے میں یہی انصاف شرط ہے
بے جرم دیکھنا نہ گنہگار دیکھنا؟
کہنے لگا یہ سن کے وہ شوخِ ستیزہ کار
آ جاؤ تم بھی ، ہو جو کوئی وار دیکھنا
اس امر کو تو اس نے کیا اس قدر محال
آساں ہے مرگ اور ہے دشوار دیکھنا
ظاہر ہے یہ کہ جاذبِ شبنم ہے آفتاب
کافی ہمیں ہے یار کا اک بار دیکھنا
میں ہوں جو بے قرار تو معذور جانیے
آساں نہیں ہے دل کا گرفتار دیکھنا
سر رکھ کے اس کے زانو پہ رویا وہ ماہ وش
یارو عدو کے طالعِ بیدار دیکھنا
شاید ہمارے دل کے اڑانے کی فکر ہے
خالی نہیں ہے ان کا یہ ہر بار دیکھنا
برگِ گیاہ ہو نہیں سکتا حریفِ برق
مجروحؔ کی طرف نہ کہیں یار دیکھنا

میر مہدی مجروح

Comments