یہ نقش ہم جو سر لو جاں بناتے ہیں

یہ نقش ہم جو سرِ لو جاں بناتے ہیں
کوئی بناتا ہے ہم خود کہاں بناتے ہیں
زمیں کی دھوپ زمانے کی دھوپ دہن کی دھوپ
ہم ایسی دھوپ میں بھی سائباں بناتے ہیں
خود اپنی خاک سے کرتے ہیں موجِ نور کشید
پھر اس سے ایک نئی کہکشاں بناتے ہیں
کھلی فضا میں خوش آواز طائروں کے ہجوم
مگر وہ لوگ جو تیر و سناں بناتے ہیں
کہانی جب نظر آتی ہے ختم ہوتی ہوئی
وہیں سے ایک نئی داستاں بناتے ہیں
افتخارؔ عارف

Comments