ساغر چڑھائے پھول کے ہر شاخسار نے

ساغر چڑھائے پھول کے ہر شاخسار نے
دریا بہا دئے خم ابر بہار نے
روشن کئے چراغِ لحد لالہ زار نے
اس مرتبہ تو آگ لگادی بہار نے
اودی گھٹائیں چھائی ہیں اے میکشو چلو
پریوں کے تخت روک لئے سبزہ زار نے
اتنا تو ہم بھی جانتے ہیں ایک آہ کی
بے آس ہو کے اس دل امیدوار نے
سینہ تک آئے سوتے میں کب میری دست شوق
دھوکا دیا تجھے تیرے پھولوں کے ہار نے
صبح شب وصال مجھے منفعل کیا
تونے تو کیا تری نگہ شرمسار نے
بے شغل جام و بادہ جواں ہوگئے ریاض
ڈالا اثر یہ آمدِ فصل بہار نے

ریاض خیر آبادی

Comments