جیسے رگ رگ میں کوئی میخ گڑی ہے اب کے

جیسے رگ رگ میں کوئی میخ گڑی ہے اب کے
روح تک بھی کہیں مصلوب پڑی ہے اب کے
رُخ پہ کچھ رنگِ شفق اور بھڑک اُٹھا ہے
ایک بے باک نظر ضد پہ اَڑی ہے اب کے
ایک موہوم سی آہٹ کا سہارا ہے مجھے
ورنہ تنہائی تو شدت کی پڑی ہے اب کے
من کی زرخیزیاں کچھ اس سے سوا چاہتی ہیں
ورنہ برسات تو چوکھٹ پہ کھڑی ہے اب کے
میں نے مانگے تھے ستارے تری راہوں کے لئے
آسمانوں سے مگر خاک جھڑی ہے اب کے
ایک پتے کے کھڑکنے سے لرز اُٹھتی ہوں
راہ اسرار جو پاؤں میں پڑی ہے اب کے
صائمہ گزری ہوں اس کرب سے ہنس کر اکثر
پر ترا ہجر قیامت کی گھڑی ہے اب کے

صائمہ اسحاق

Comments