Posts

Showing posts from November, 2019

بہ مہر نامہ جو بوسہ گل پیام رہا

زیر زمیں ہوں تشنۂ دیدار یار کا

خواہش

آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم

بلال

کسی سے حال دل زار مت کہو سائیں

رخصت رقص بھی ہے پاؤں میں زنجیر بھی ہے

دل آباد کہاں رہ پاۓ اس کی یاد بھلا دینے سے

یہ کیسا شہر ہے جس میں مکمل گھر نہیں ملتا

عمریں گزار کر یہاں پیڑوں کی دیکھ بھال میں

کتاب الحسن کا یہ مکھ صفا تیرا صفا دستا

حسن جو رنگ خزاں میں ہے وہ پہچان گیا

کیا سہل سمجھے ہو کہیں دھبا چھٹا نہ ہو

تیری وحدت کی گواہی جو دیا کرتے ہیں

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے

نواح وسعت میداں میں حیرانی بہت ہے

خواب میں کاش کبھی ایسی بھی ساعت پاؤں

بڑے آداب ہیں اس احترام آباد طیبہ کے

نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا

اب ملاقات کہاں شیشے سے پیمانے سے

تیرے چہرے سے ہو ظاہر غم پنہاں میرا

سوچ کی الجھی ہوئی جھاڑی کی جانب جو گئی

یوں تو فریاد مری آہ بہ لب ہوتی ہے

میں جرم خمو شی کی صفائی نہیں دیتا

نفی ذات کے منظر اتارنے والا

بدن چراتے ہوئے روح میں سمایا کر

سویرا ہو بھی چکا اور رات باقی ہے

اتنا کیوں شرماتے ہیں

چاند سا چہرہ جو اس کا آشکارا ہو گیا

شدید پیاس تھی پھر بھی چھوا نہ پانی کو

وو نازنیں ادا میں اعجاز ہے سراپا

کیا توقع کرے کوئی ہم سے

شب کہ ذوق گفتگو سے تیری دل بیتاب تھا

مجھے لڑتے ہوئے خود سے زمانے ہو گئے ہیں

وہ ستم دوست بنا دوست کسی کا نہ بنے

منزلوں کے فاصلے در و دیوار میں رہ گئے

زنداں کی ایک شام

ڈولی مری جیون دوار کھڑی، کوئی چنری آکے اڑھا جانا

باہر کے اسرار لہو کے اندر کھلتے ہیں

سمندروں کے درمیان سو گئے