سوچ کی الجھی ہوئی جھاڑی کی جانب جو گئی

سوچ کی الجھی ہوئی جھاڑی کی جانب جو گئی
آس کی رنگین تتلی،خوں کا چھینٹا ہو گئی

 



   

اس کی خوشبو تھی؟ مری آواز تھی؟ کیا چیز تھی؟
جو دریچہ توڑ کر نکلی، فضا میں کھو گئی

 

آخرِ شب، دور کہساروں سے برفانی ہوا
شہر میں آئی۔ مرے کمرے میں آ کر سو گئی

 

چند چھلکوں اور اک بوڑھی بھکارن کے سوا
ریل گاڑی آخری منزل پر خالی ہو گئی

 

اس قدر میلا نہ تھا، جس پر کسی کا نام تھا
پھر بھی اسلمؔ آنکھ چھلکی، اور کاغذ دھو گئی

اسلم کولسری

Comments