بقدر حوصلۂ ضبط زہر کھایا ہے

بقدرِ حوصلۂ ضبط زہر کھایا ہے
ضرورتوں نے مِرا ظرف آزمایا ہے



 کسی دیار کسی آستاں کی قید نہیں
تِرا خیال جہاں آیا، سر جھکایا ہے
اٹھا لیا ہے نگاہوں پہ میکدہ ہم نے
شراب میں بھی تِرے گیسوؤں کا سایا ہے
نوازشِ غمِ پنہاں بہت غنیمت تھی
مسرتوں نے بھری بزم سے اٹھایا ہے
صبائے نرم قدم! ہے تمہارے غم کا خیال
ہجومِ درد میں ہر زخم مسکرایا ہے
گلی گلی میں تِری کج روی کے چرچے تھے
مِری وفا نے تِرا بانکپن بڑھایا ہے
خدا کرے کہ غمِ دوست ہو عطا سب کو
غموں کو پا کے جنوں نے جہاں کو پایا ہے
شریکِ جام تمہارا خیال کیوں نہ رہے
کہ مے کدہ میں تمہارا خیالؔ آیا ہے

فیض الحسن خیال

Comments