یہ رات ہے ڈھلنے میں ذرا دیر لگے گی

یہ رات ہے، ڈھلنے میں ذرا دیر لگے گی
سُورج کو نِکلنے میں ذرا دیر لگے گی
تازہ ہے ابھی زخم ذرا، تھوڑا توقّف!
باتوں سے بہلنے میں ذرا دیر لگے گی
مانگی ہے بڑے شوق سے قُربت، کہ اُسے بھی!
اب بات بدلنے میں ذرا دیر لگے گی
چٹان گھلی تو ہے مِری ایڑیاں لے کر
چشمے کو اُبلنے میں ذرا دیر لگے گی
کوشِش تو یہی ہے، کہ تکلّف سے گُزر جائیں
خوابوں کو بدلنےمیں ذرا دیر لگے گی
اِس کی تو خبر ہے، کہ پیڑ کی شاخیں
گیلی ہیں ، تو جلنے میں ذرا دیر لگے گی
راس آئے گی پودوں کو نئے شہر کی مٹّی!
ا ور پُھولنے پھلنے  میں ذرا دیر لگے گی
مانگے سے نہیں مِلتے کہیں دُھوپ کے ٹُکڑے
سو، برف پِگھلنے میں ذرا دیر لگے گی
پھر ایک نئے زخم کی توقیر بڑھائی!
پھر دِل کو سنبھلنے میں ذرا دیر لگے گی
واصف حُسین واصفؔ

Comments