کسی ستارے نہ مہتاب کی ضرورت ہے

کسی سِتارے نہ مہتاب کی ضرُورت ہے
ہماری آنکھ کو،  اِک خواب کی ضرُورت ہے



 کوئی دُعا، کوئی آنسو، کوئی اُداس نَظر!
سفر نَصِیب کو،  اسباب کی ضرُورت ہے
یہ مَیں جو ہجر تِرا کاٹتا ہُوں دانِستہ
مِرے ہُنر کو تب و تاب کی ضرُورت ہے
گُزرنا پڑتا ہے تیری گَلی سے شام وسَحر
یَقین کر،  دِلِ بیتاب کی ضرُورت ہے
یہ خاک شہرِبَدن پر کمال سجتی ہے
سَو ، اب تو بس اِسی کمخواب کی ضرُورت ہے
یہ اُس کا شہر ہے، دربارِشہر یار نہیں!
خبر رہے،  یہاں آداب کی ضرُورت ہے
میں لِکھنا چاہتا ہُوں، اور لکھ نہیں پاتا
کتابِ عُمر میں جس باب کی ضرُورت ہے
دِکھائی دیں گے مناظر تجھے اُدھر کے بھی
بس ایک دِیدۂ بے خواب کی ضرُورت ہے.
کہاں سے لاؤں پَرِندوں کی ٹولِیاں اظہرؔ
مِری مُنڈیر کو احباب کی ضرُورت ہے
اظہرؔ ادیب

Comments