اشارتوں کی وہ شرحیں وہ تجزیہ بھی گیا

اشارتوں کی وہ شرحیں وہ تجزیہ بھی گیا
جو گردِ متن بنا تھا وہ حاشیہ بھی گیا

وہ دلربا سے جو سپنے تھے لے اُڑیں نیندیں
دھنک نگر سے وہ دھندلا سا رابطہ بھی گیا

ہمیں بھی بننے سنورنے کا  دھیان رہتا تھا
وہ ایک شخص کہ تھا ایک آئینہ بھی، گیا

بڑا سکون ملا آج اس کے ملنے سے
چلو یہ دل سے توقع کا وسوسہ بھی گیا

بس ایک لحظے کے اندازِ ترش روئی سے
چڑھا ہوا تھا جو مدت سے وہ نشہ بھی گیا

عجب لطف تھا نادانیوں کے عالم میں
سمجھ میں آئیں تو باتوں کا وہ مزہ بھی گیا

گُلوں کو دیکھ کے اب راکھ یاد آتی ہے
خیال کا وہ سہانا تلازمہ بھی گیا

مسافرت پہ میں تیشے کے سنگ نکلا تھا
جدھر گیا ہوں مرے ساتھ راستہ بھی گیا

ہمیں تو ایک نظر نشر کر گئی انور
ہمارے ہاتھ سے دل کا مسودہ بھی گیا

انور مسعود

Comments