کانچ کے شہر میں پتھر نہ اٹھاؤ یارو

کانچ کے شہر میں پتھر نہ اٹھاؤ یارو
مے کدہ ہے، اسے مقتل نہ بناؤ یارو
زندگی بکنے چلی آئی ہے بازاروں میں
اس جنازے کے بھی کچھ دام  لگاؤ یارو
جن کی شہ رگ کا لہو پھول کی انگڑائی تھا
ان کو اب حالِ گلستاں نہ سناؤ یارو
پھیلتے سایۂ شب میں نہ چلو رک رک کے
بجھتی راہوں کو کفِ پا سے سجاؤ یارو
بزمِ یاراں میں وہ کچھ سوچ کے آیا ہو گا
ایسے دیوانے کو ٹھوکر نہ لگاؤ یارو
رات ڈھل جائیگی میخانہ سنبھل جائے گا
کوئی نغمہ، کوئی پیغام سناؤ یارو
زندگی رینگتی پھرتی ہے یہاں کاسہ بکف
اس کو اب وقت کا آئینہ دکھاؤ یارو
اب دھندلکوں میں بھی ہے تازہ اجالوں کا خیالؔ
شب کی دیوار سلیقے سے گراؤ یارو

فیض الحسن خیال

Comments