ساری امید رہی جاتی ہے

ساری امید رہی جاتی ہے
ہائے پھر صبح ہوئی جاتی ہے

نیند آتی ہے نہ وہ آتے ہیں 
رات گذری ہی چلی جاتی ہے



مجمع حشر میں رودادِ شباب
وہ سنے بھی تو کہی جاتی ہے

داستاں پوری نہ ہونے پائی
زندگی ختم ہوئی جاتی ہے

وہ نہ آئے ہیں تو بے چین ہے روح
ابھی آتی ہے ابھی جاتی ہے

زندگی آپ کے دیوانے کی
کسی صورت سے کٹی جاتی ہے

غم  میں پروانوں کے اک مدت سے
شمع گھلتی ہے چلی جاتی ہے

آپ محفل سے چلے جاتے ہیں 
داستاں باقی رہی جاتی ہے

ہم تو بسملؔ ہی رہے خیر ہوئی
عشق میں جان چلی جاتی ہے
بسمل عظیم آبادی

Comments