مجھے لڑتے ہوئے خود سے زمانے ہو گئے ہیں

مجھے لڑتے ہوۓ خود سے زمانے ہو گئے ہیں
مرے ہتھیار سب کے سب پرانے ہو گئے ہیں



 ترے لہجے میں کیوں اتنا تکبر آ گیا ہے 
تو کیا وافر بہت اس فصل دانے ہو گئے ہیں

وہ جن احساس باغوں شوق جگنو رقص میں تھے
کہیں کیا کن بلاؤں کے ٹھکانے ہو گئے ہیں
یہ سبزہ زارِ دل یک رنگ و خوش آہنگ بھی تھا
اور اب خالی زمیں کے کتنے خانے ہو گئے ہیں
ہماری آن کا وہ اس قدر دشمن ہوا ہے
انا کے سب نشاں اس کے نشانے ہو گئے ہیں
وہ جن کو شہر بھر میں پوچھتا کوئی نہیں تھا 
ہوا بدلی تو کیسے جانے مانے ہو گئے ہیں
ترے کردار شکنوں کے سب اوچھے وار خود ہی
ترے مظلوم ہونے کے بہانے ہو گئے ہیں
سماعت اس کی ہے بیمار تو پھر کیا شکایت
کسی کو گر ہمارے بَین گانے ہو گئے ہیں
کہانی پر سوال ایسے کہانی نے اٹھاۓ
نئی اک داستاں کے تانے بانے ہو گئے ہیں
جلیل عالی

Comments