یہ کیسا شہر ہے جس میں مکمل گھر نہیں ملتا

یہ کیسا شہر ہے جس میں مکمل گھر نہیں ملتا
کسی کو چھت نہیں ملتی کسی کو در نہیں ملتا



اٹھا رکھے ہیں اپنے نا مکمل جسم لوگوں نے
کسی کے پاوں غائب ہیں کسی کا سر نہیں ملتا

گھری رہتی ہیں جانے کس بلا کے خوف میں گلیاں
یہاں روشن دنوں میں بھی کوئی باہر نہیں ملتا

بھری بستی کے چوراہے پہ لاوارث پڑا ہوں میں
مری پیچان کیسے ہو کہ میر سر نہیں ملتا

الجھ جاتی ہیں ہاتھوں کی لکیروں سے تمنائیں
جو ملنا چاہئے اظہر ہمیں ، اکثر نہیں ملتا
اظہر ادیب

Comments