اپنا جیسا بھی حال رکھا ہے

اپنا جیسا بھی حال رکھّا ہے 
تیرے غم کو نہال رکھّا ہے



 شاعری کیا ہے ہم نے جینے کا 
ایک رستہ نکال رکھّا ہے
ہم نے گھر کی سلامتی کے لئے 
خود کو گھر سے نکال رکھّا ہے
میرے اندر جو سرپھرا ہے، اُسے 
مَیں نے زِنداں میں ڈال رکھّا ہے
ایک چہرہ ہے ہم نے جِس کے لئے 
آئینوں کا خیال رکھّا ہے
اس بَرس کا بھی نام ہم نے تو 
تیری یادوں کا سال رکھّا ہے
گرتے گرتے بھی ہم نے ہاتھوں پر 
آسماں کو سنبھال رکھّا ہے
کیا خبر شیشہ گر نے کیوں اظہرؔ 
میرے شیشے میں بال رکھّا ہے
اظہرؔ ادیب

Comments