یوں تو فریاد مری آہ بہ لب ہوتی ہے

یوں تو فریاد مری آہ بہ لب ہوتی ہے
عرضِ احوال کی فرصت مجھے کب ہوتی ہے



 ان کے ہاتھوں میں چراغِ سحری ہے یارو
جن کو معلوم نہیں صبح بھی کب ہوتی ہے
بعض اوقات بہ اندازِ کرم، بربادی
جانے پہچانے ہی لوگوں کے سبب ہوتی ہے
پاؤں تھک جائیں جہاں میں وہیں رک جاتا ہوں
منزلِ دوست جہاں ہو وہیں شب ہوتی ہے 
ہم مسیحا جنہیں سمجھے وہی قاتل نکلے
ہائے اپنوں کی بھی امداد غضب ہوتی ہے
تاب جلووں کی رہے یا نہ رہے آنکھوں میں
آپ کے غم کی حکومت بھی عجب ہوتی ہے
دل میں کیا کیا نہ تھا کچھ کہہ نہ سکا ان سے خیالؔ
کشمکش عرضِ تمنا کی عجب ہوتی ہے
فیض الحسن خیال

Comments