تو پھول کی مانند نہ شبنم کی طرح آ

تو پھول کی مانند نہ شبنم کی طرح آ 
اب کے کسی بے نام سے موسم کی طرح آ



ہر مرتبہ آتا ہے مہِ نو کی طرح تو 
اس بار ذرا میری شبِ غم کی طرح آ

حل کرنے ہیں مجھ کو کئی پیچیدہ مسائل 
اے جانِ وفا گیسوئے پُر خم کی طرح آ

زخموں کو گوارا نہیں یک رنگیِ حالات 
نِشتر کی طرح آ کبھی مرہم کی طرح آ

نزدیکی و دوری کی کشاکش کو مٹا دے 
اس جنگ میں تو صلح کے پرچم کی طرح آ

مانا کہ مرا گھر تری جنت تو نہیں ہے 
دنیا میں مری لغزشِ آدم کی طرح آ

تو کچھ تو مرے ضبطِ محبت کا صلہ دے 
ہنگامِ فنا دیدۂ پر نم کی طرح آ ​
فنا نظامی کانپوری

Comments