ہم کو جس دن نہ زمانے سے شکایت ہوگی

ہم کو جس دن نہ زمانے سے شکایت ہوگی
خود سے شرم آئے گی یا تجھ سے ندامت ہوگی



 ایک دن آئے گا جب آنکھیں ہی آنکھیں ہوں گی
اور ہر آنکھ میں بیداری کی لذت ہوگی
کس کی دستک ہے کہ دروازے کو سہلاتی ہے
اور کون آئے گا یاں، ہجر کی ساعت ہوگی
وہ ادھر اوس کی اک بوند نظر آتی ہے
جانے کس شخص کی پلکوں کی امانت ہوگی
مٹھیاں ریت سے بھر لو کہ سمندر میں تمھیں
اک نہ اک روز جزیروں کی ضرورت ہوگی
شہریار

Comments