یہ جو الفاظ کو مہکار بنایا ہوا ہے

یہ جو الفاظ کو مہکار بنایا ہوا ہے 
ایک گل کا یہ سب اسرار بنایا ہوا ہے



 سوچ کو سوجھ کہاں ہے کہ جو کچھ کہہ پاۓ
دل نے کیا کیا پسِ دیوار بنایا ہوا ہے

پیر جاتے ہیں یہ دریاۓ شب و روز اکثر
باغ اک سیر کو اس پار بنایا ہوا ہے
شوق دہلیز پہ بے تاب کھڑا ہے کب سے 
درد گوندھے ہوۓ ہیں، ہار بنایا ہوا ہے
یہ تو اپنوں ہی کے چرکوں کی سلگ ہے ورنہ 
دل نے ہر آگ کو گلزار بنایا ہوا ہے
توڑنا ہے جو تعلق، تو تذبذب کیسا
شاخِ احساس پہ کیا بار بنایا ہوا ہے
جاں کھپاتے ہیں غمِ عشق میں خوش خوش عالیؔ 
کیسی لذت کا یہ آزار بنایا ہوا ہے

جلیل عالی

Comments