بدن چراتے ہوئے روح میں سمایا کر

بدن چراتے ہوئے روح میں سمایا کر
میں اپنی دھوپ میں سویا ہوا ہوں سایہ کر



 یہ اور بات کہ دل میں گھنا اندھیرا ہے
مگر زبان سے تو چاندنی لٹایا کر
چھپا ہوا ہے تری عاجزی کے ترکش میں
انا کے تیر اسی زہر میں بجھایا کر
کوئی سبیل کہ پیاسے پناہ مانگتے ہیں
سفر کی راہ میں پرچھائیاں بچھایا کر
خدا کے واسطے موقع نہ دے شکایت کا
کہ دوستی کی طرح دشمنی نبھایا کر
عجب ہوا کہ گرہ پڑگئی محبت میں
جو ہوسکے تو جدائی میں راس آیا کر
نئے چراغ جلا یاد کے خرابے میں
وطن میں رات سہی روشنی منایا کر
ساقی فاروقی

Comments