اب ملاقات کہاں شیشے سے پیمانے سے

اب ملاقات کہاں شیشے سے پیمانے سے
فاتحہ پڑھ کے چلے آتے ہیں میخانے سے



کیا کریں جام و سبو ہاتھ پکڑ لیتے ہیں 
جی تو کہتا ہے کہ اُٹھ جائیے میخانے سے

پھونک کر ہم نے ہر اک گام پہ رکھا ہے قدم
آسماں پھر بھی نہ باز آیا ستم ڈھانے سے

ہم کو جب آپ بلاتے ہیں چلے آتے ہیں 
آپ بھی تو کبھی آ جائیے بلوانے سے

ارے او وعدہ فراموش پہاڑ ایسی رات
کیا کہیں کیسے کٹی تیرے نہیں آنے سے

یاد رکھ! وقت کے انداز نہیں بدلیں گے
ارے اللہ کے بندے ترے گھبرانے سے

سر چڑھائیں کبھی آنکھوں سے لگائیں ساقی
تیرے ہاتھوں کی چھلک جائے جو پیمانے سے

خالی رکھی ہوئی بوتل  یہ پتا دیتی ہے
کہ ابھی اُٹھ کے گیا ہے کوئی میخانے سے

آئے گی حشر کی ناصح کی سمجھ میں کیا خاک
جب سمجھ دار سمجھتے نہیں سمجھانے سے

برق کے ڈر سے کلیجے سے لگائے ہوئے ہے
چار تِنکے جو اُٹھا لائی ہے ویرانے سے

دل ذرا بھی نہ پسیجا بُتِ کافر تیرا
کعبہ اللہ کا گھر بن گیا بُت خانے سے
بسمل عظیم آبادی

Comments