باہر کے اسرار لہو کے اندر کھلتے ہیں

باہر کے اسرار لہو کے اندر کھلتے ہیں
بند آنکھوں پر کیسے کیسے منظر کھلتے ہیں
اپنے اشکوں سے اپنا دل شق ہوجاتا ہے
بارش کی بوچھار سے کیا کیا پتھر کھلتے ہیں
لفظوں کی تقدیر بندھی ہے میرے قلم کے ساتھ
ہاتھ میں آتے ہی شمشیر کے جوہر کھلتے ہیں
شام کھلے تو نشے کی حد جاری ہوتی ہے
تشنہ کاموں کی حجت پر ساغر کھلتے ہیں
ساقی پاگل کردیتے ہیں وصل کے خواب مجھے
اس کو دیکھتے ہی آنکھوں میں بستر کھلتے ہیں
ساقی فاروقی

Comments