دریا کو اور کوئی بہانہ تو ہے نہیں

دریا کو اور کوئی بہانہ تو ہے نہیں
کہتا ہے،  چَل کہ تیرا ٹِھکانہ تو ہے نہیں



 اب کہہ دیا، تو بات نبھائیں گے عُمر بھر
حالانکہ،  دوستی کا زمانہ تو ہے نہیں
لاوا سا کھولتا ہے سَدا اندرونِ ذات
آتِش فِشانِ غم کا دہانہ تو ہے نہیں
دِیوانہ ہے جو اُس سے تَوَقّع رکھے کوئی!
آخر وہ رہنما ہے، دِوانہ تو ہے نہیں
تھوڑی سی روشنی ہے اِسے جو بھی لُوٹ لے
جُگنُو مِیاں کے پاس خزانہ تو ہے نہیں
سب جائے حادثہ سے بہت دُور ہوگئے
زخمی کی چیخ  کوئی ترانہ تو ہے نہیں
چُبھ جائیں جانے کِس کومظفرؔ! ہمارے شعر
اپنا بھی کوئی خاص نشانہ تو ہے نہیں
پروفیسر مظفرؔ حنفی

Comments