درخشندہ ہےوہ لیکن ہمیں پیارا نہیں ہے وہ

درخشندہ ہےوہ لیکن! ہَمَیں پیارا نہیں ہےوہ
عَلَم بردار شب ہے، صُبح کا تارا نہیں ہے وہ



 پڑوسی کو ستاکر کِس لئے مسرُور ہوتے ہو
جسے مارا ہے تُم نے،  نفسِ امّارا نہیں ہے وہ
وہ برگِ زرد، جِس کو شاخ نے آزاد فرمایا
بگولے کی کلاہِ زر ہے ، بیچارا نہیں ہے وہ
فرشتہ موت کا ، چُپکے سے آکر داب لیتا ہے
نظیرِ اکبرآبادی کا بنجارا نہیں ہے وہ
اُسے مہ پارہ کہنا چاند ہی کے فائدے میں ہے
بخوبی  جانتے ہیں ہم ، کہ مہ پارا نہیں ہے وہ
مظؔفّر کے لیے یہ کلمہ ہائے خیر کیا کم ہیں!
کہ بے شک سر بُریدہ ہے، مگر ہارا نہیں ہے وہ
پروفیسر مظؔفّر حنفی

Comments