Posts

Showing posts from September, 2018

اس نے وعدہ کیا ہے آنے کا

اگر تلاش کروں کوئی مل ہی جائے گا

سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی

چلے بھی آؤ کہ ہم انتظار کرتے ہیں

تیری یاد اور تیرے دھیان میں گزری ہے

اجنبی خواہشیں سینے میں دبا بھی نہ سکوں

وہ کبھی پاس سے گزرا تو بلایا نہ گیا

مجھ کو یہ فکر کب ہے کہ سایہ کہاں گیا

کیا نمو کار ہے کیا اجر نمو مانگتا ہے

جو طرز نکالوں گا مثالی ہی رہے گی

جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے

جس دن سے حرام ہو گئی ہے

تنگی رزق سے ہلکان رکھا جائے گا کیا

محبت ہے تماشا تو نہیں ہے

ہو کر وہ جواں بدل گیا ہے

رہ گزاروں سے پھولوں کا وعدہ کریں

نگاہوں میں خمار آتا ہوا محسوس ہوتا ہے

جس وقت آئے ہوش میں کچھ بے خودی سے ہم

تمہیں کیسے بتائیں کس طرح ہم نے بسر کر دی

جمال احسانی ، شعر

اک بہاؤ کی کہانی ہے میاں

فیر کرن برباد آئی اے

مجھ کو خود اپنی طرف تیر چلانے ہوں گے

عمر گزرے گی امتحان میں کیا

نہیں کہ ملنے ملانے کا سلسلہ رکھنا

لیکن وہ خوش ہوا تو بڑا دکھ ہوا مجھے

اب سماعت ہی کہاں شعر سنائیں کیسے

جس نے کیے ہیں پھول نچھاور کبھی کبھی

پھول توڑے تھے بیچنے کے لئے

یہ دنیا بھی عجب قصہ ہے صاحب

منافقین بھلا کیا سمجھ سکیں گے مجھے

یہ جھاڑیاں یہ خار کہاں آ گیا ہوں میں

جب خزاں آئے تو پتے نہ ثمر بچتا ہے