مجھ کو خود اپنی طرف تیر چلانے ہوں گے

آنکھ کھولوں گا تو یادوں کے خزانے ہوں گے

نئے کپڑوں میں وہی لوگ پرانے ہوں گے

پیڑ نے بُور نہیں عشق اُٹھایا ہے میاں !

اب درختوں سے بھی منسوب فسانے ہوں گے

میرا دشمن مرے اندر ہی چُھپا بیٹھا ہے

مجھ کو خود اپنی طرف تیر چلانے ہوں گے

یہ جو اپنے ہیں مرے جان سے پیارے اپنے

موت آئی تو سبھی چھوڑ کے جانے ہوں گے

مجلسِ  ہجر کی توقیر بڑھانے کے لیے

آنکھ سے اشک نہیں خواب بہانے ہوں گے

یوں بچھڑنے پہ تو دل اپنا بُرا تو نہ کر

فیصلے یوں ہی لکھے میرے خدا نے ہوں گے

بس کہانی میں یہاں تک ہی سفر تھا اپنا

اِس سے آگے تو ہمیں ہاتھ چھڑانے ہوں گے

اب یہاں شور ہے چیخیں ہیں عداوت ہے سعیدؔ

اب یہاں عشق کے اشعار سُنانے ہوں گے

مبشر سعید

Comments