ہو کر وہ جواں بدل گیا ہے

ہو کر وہ جواں بدل گیا ہے
واللہ غزل میں ڈھل گیا ہے
کیا آۓ گا وہ جو کل گیا ہے
اپنا تو دماغ چل گیا ہے
رہزن کا عذاب ٹل گیا ہے
رستہ ہی مرا بدل گیا ہے
ساے میں جو آ گیا ہمارے
سانچے میں جنوں کے ڈھل گیا ہے
یہ کس نے کہا کے حشر اٹھا
دیوانہ ترا مچل گیا ہے
چھیڑی تھی وفا کے بات میں نے
احباب کا رخ بدل گیا ہے
تابندہ ہوا ہے داغ دل کا
کعبے میں چراغ جل گیا ہے
اُس پر ہے عذاب آخرت میں
دُنیا سے جو بے عمل گیا ہے
الزام غلط ہے شمع کے سر
پروانہ تو آپ جل گیا ہے
دنیا میں نصیر ؔ میرے دل کو
ٹھوکر وہ لگی سنبھل گیا ہے
نصیر الدین نصیر

Comments