اپنی خوش قسمتی کا کیا کیجے

اپنی خوش قسمتی کا کیا کیجے
تو نہیں تو کسی کا کیا کیجے

اب تو اقرار بھی نہیں درکار
اب تری خامشی کا کیا کیجے

ہاتھ پتھر سے ہو گۓ مانوس
شوق ِ کوزہ گری کا کیا کیجے

میرا شوق ِ طلب ہی اتنا ہے
تیری دریا دلی کا کیا کیجے

کچھ نہیں دے رہا سجھائ ہمیں
اس قدر روشنی کا کیا کیجے

آئینہ ڈھانپیۓ اگر بالفرض
دوسرے آدمی کا کیا کیجے

اظہر فراغ

Comments