سفر میں یاد نہ آئے کوئی ٹھکانہ ہمیں

سفر میں یاد نہ آئے کوئی ٹھکانہ ہمیں
غم زمانہ لگا ایسا تازیانہ ہمیں
امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دے کر
سمندروں کے سفر پر کیا روانہ ہمیں
جہاں سے ساتھ زمانے کو لے کے چلنا تھا
وہیں پہ چھوڑ گئی گردش زمانہ ہمیں
ہر ایک سمت کھڑی ہیں بلند دیواریں
تمام شہر نظر آئے قید خانہ ہمیں
ملوک ہم نفساں دیکھ کر یہ دھیان آیا
کہ کاش پھر ملے دشمن وہی پرانا ہمیں
ہوائے صبح دل آزار اتنی تیز نہ چل
چراغ شام غریباں ہیں ہم بجھا نہ ہمیں
نگاہ پڑتی ہے پھر کیوں پرائی شمعوں پر
اگر عزیز ہے محسنؔ چراغ خانہ ہمیں

محسن احسان

Comments

Post a Comment