سال کی آخری شب

سال کی آخری شب
میرے کمرے میں کتابوں کا ہجوم
پچھلی راتوں کو تراشے ہوئے کچھ ماہ و نجوم
میں اکیلا مرے اطراف علوم
ایک تصویر پہ بنتے ہوئے میرے خدوخال
ان پہ جمتی ہوئی گردِ مہہ و سال
اک ہیولا سا پسِ شہرِ غبار
اور مجھے جکڑے ہوئے خود مری بانہوں کے حصار
کوئی روزن ہے نہ در
سو گئے اہلِ خبر
سال کی آخری شب
نہ کسی ہجر کا صدمہ نہ کسی وصل کا خواب
ختم ہونے کو ہے بس آخری لمحے کا شباب
اور افق پار دھندلکوں سے کہیں
کھلنے والا ہے نئی صبح کا باب
اس نئی صبح کو کیا نذر کروں
ہر طرف پھیلا ہوا تیز ہواؤں کا فسُوں
اور میں سوچتا ہوں
در و دیوار میں لپٹے ہوئے سہمے ہوئے لوگ
گلی کوچوں میں نکلتے ہوئے گھبراتے ہیں
میں انہیں کیسے بتاؤں کہ یہی موسم ہے
جب پرندوں کے پَر و بال نکل آتے ہیں

سلیم کوثر

Comments