ہجوم تجلی سے معمور ہو کر

ہجومِ تجلی سے معمور ہو کر
نظر رہ گئی شعلہِ طور ہو کر

مجھی میں رہے مجھ سے مستور ہو کر
بہت پاس نکلے بہت دور ہو کر

تمہیں بھی خبر ہے جو تم کہ گئے ہو ؟
خود اپنی اداؤں سے مسحور ہو کر

خبر بھی ہے؟ تم کیا سے کیا ہو گئے
زسر تا قدم حُسنِ مجبور ہو کر

تجاہل، تغافل، تبسم، تکلم
یہاں تک تو پہنچے وہ مجبور ہو کر

تر ے حُسنِ مغرور سے نسبتیں ہیں
کہیں ہم نہ رہ جائیں مغرور ہو کر

جگر کی اداؤں کا اب پوچھنا کیا
تری مست نظروں سے مخمور ہو کر

جگر مرادآبادی

Comments