لوگ اپنا کیا بھگت رہے ہیں

لوگ اپنا کِیا بھگت رہے ہیں
ہم کسی اور کا بھگت رہے ہیں

آپ رسیّ دراز کی اس کی
اب اسے جابجا بھگت رہے ہیں

مخبری تھوڑی کررہے ہیں تری
صرف اپنی سزا بھگت رہے ہیں

پانیوں سے دعا سلام نہیں
ناوء کی بد دعا بھگت رہے ہیں

رنجشیں اور اور ہیں لیکن
ایک ہی مسئلہ بھگت رہے ہیں

اوّلیں جنگلوں کے باسی ہیں
ہر نیا ذائقہ بھگت رہے ہیں

وہ بھی اقرار کرکے پھنس گیا ہے
ہم بھی اپنا کہا بھگت رہے ہیں

اظہر فراغ

Comments